Writer: ضیاء الرحمان
ملک میں اس وقت مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے جو کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا جس کی دو بڑی وجوہات ہیں،ایک بیڈ گورننس اور دوسری وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کا بڑھنا ہے۔اس وقت ایک ڈالر 151پاکستانی روپوں کا ہو چکا ہے اور ڈالر کے مسلسل بڑھنے کے باعث معاشی عدم استحکام پیدا ہو چکا اور سٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان ہے اس کے ساتھ ساتھ ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر بڑھنے کے باعث پیٹرول اور فرنس آئل کی قیمت میں اضافے نے ملک میں تمام اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بے حد اضافہ کیاجس نے عام آدمی کو مشکلات سے دوچار کر دیااور گزشتہ10سالوں میں کرپشن کرنے کے باعث احتساب کے گرداب میں پھنسی سیاسی قیادت کو تنقید کا موقع مل گیاکیونکہ مہنگائی پر تو ہر کوئی کسی بھی وقت سیاست کر سکتا ہے حالانکہ آج ملکی معاشی صورتحال کے ذمہ دار موجودہ حکمران نہیں بلکہ 2008ء میں قائم پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اور پھر 2013ء میں قائم ہونیوالی پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتیں ہیںکیونکہ پی پی اور ن لیگ کے10سالہ اقتدار میں ملک پر 500گنا بیرونی قرضوں کا بوجھ ڈالا گیا اور قرضے بھی شتربے مہار لیے گئے جن کی واپسی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔یہاں ڈالر کی پاکستان بننے سے اب تک قیمت پر نظر ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ قارئین کو اصل صورتحال کا پتا چل سکے۔پاکستان بننے کے چند ماہ بعدیعنی1948ء میں ڈالر سوا تین روپے کا تھاجو7سال تک اسی قیمت پر برقرار رہا پھر 1955ء میں تھوڑی بہت ڈالر نے ہلچل کی اور 3.9روپے کا ہو گیا لیکن اگلے ہی سال 1956ء میںڈالر یکدم پونے 5روپے کا ہو گیاجو 15سال تک اسی قیمت پر براجمان رہا۔1972ء میں اچانک ڈالر نے اونچی اڑان لی اور تقریبا4روپے مہنگا ہو کر 8.6روپے کا ہو گیاجو اگلے ہی سال1973ء میں10روپے کا ہو گیا۔1973ء سے 1981ء تک ڈالر 10روپے کا ہی رہا مگر پھر1982ء میںپاکستانی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں نظر سی لگ گئی اور ڈالر نے پاکستانی روپے کے مقابلے میں ہر سال مضبوط سے مضبوط تر ہونا شروع کر دیا۔1982ء میں ڈالر پونے 12روپے،83ء میں 13روپے،84ء میں 14.4روپے اور پھر اسی طرح 1988ء میں ڈالر بڑھ کر 18روپے تک جا پہنچا۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1988ء تک جمہوری ادوار بھی گزرے اورتین ڈکٹیٹرز کے دور حکومت بھی رہے مگر ڈالر 40سالوں میں سواتین روپے سے بڑھ کر 18روپے تک گیا یعنی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 40سالوں میں محض پونے 15روپے بڑھی لیکن جونہی ملک میں 1988سے جمہوری ادوار شروع ہوئے تو ڈالر1988ء سے 1998ء تک ڈالر 18روپے سے 45روپے تک جا پہنچا اور ان 10سالوں میں دو دفعہ پاکستان پیپلز پارٹی اور دو دفعہ پاکستان مسلم لیگ ن نے حکومت کی جن کے ادوار میں ڈالر 27روپے تک بڑھ گیا۔اس کے بعد جنرل (ر)مشرف کا دور حکومت آیا اور ایک ڈکٹیٹر کی حکومت ہوتے ہوئے بھی ڈالر 10سالوں میں 22روپے مزید بڑھ گیایعنی 1998ء سے 2008ء تک ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قیمت 45روپے سے بڑھ کر 67روپے تک جا پہنچی۔اس کے بعد پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا 5سالہ دور حکومت شروع ہوتا ہے اور ڈالر کو پر لگ جاتے ہیں ۔2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی اور اسی سال چند ماہ میں پی پی دور حکومت میں ڈالر یکدم 81روپے تک جا پہنچا یعنی محض 6ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں پاکسانی روپے کی قدر میں 14روپے کی کمی واقع ہو گئی جس کی ذمہ داری پی پی حکومت نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر ڈال دی کہ انھوں نے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول میں کیا ہو ا تھا اب ہم آ گئے ہیں تو ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر آ رہی ہے مگر پی پی حکومت کے اس اقدام سے مہنگائی کا ایک طوفان آ گیا اور اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں تین گنا تک بھی اضافہ دیکھا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت 2008ء سے 2013تک قائم رہی جس دوران ڈالر کی قیمت 5سال میں 67سے بڑھ کر 98روپے تک جا پہنچی۔اب پی پی حکومت جواب دے کہ اس کے دور حکومت میں ڈالر 31روپے کیوں بڑھا؟پی پی حکومت میں مہنگائی نے جو ہونا تھا ہو گئی تھی اور اب روٹین میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا کہ2013ء میں پھر عام انتخابات ہوئے اور ملک میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہو گئی اور اس ملک کی عوام پر پھر مہنگائی کا بوجھ ڈال دیا گیاکیونکہ ڈالر پھر بے لگام تھا اور ن لیگ معاشی صورتحال کی ذمہ داری مشرف اور پی پی حکومت پر ڈالتی نظر آ رہی تھی۔2013ء سے 2018ء تک پاکستان مسلم لیگ ن نے ملک پر حکومت کی اس دوران ڈالر 98روپے سے بڑھ کر 130روپے کا ہو گیا جو کہ بعد میں 122روپے پر واپس آ کر 124روپے پر ٹھہر گیا۔پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ڈالرکی قیمت میں 32روپے تک اضافہ ہوا تو کیا پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت 32روپے ڈالر کے بڑھنے کا جواب دیگی؟اگر پی پی اور ن لیگ کے 2008ء سے 2018ء کے 10سالہ دور میںڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 63روپے کمی واقع ہوئی اور ڈالر 67روپے سے 130روپے تک جا پہنچا جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان بدتمیزی بپا رہا اور غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے گئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی اور پی ٹی آئی کے ابتدائی 9ماہ کے دور حکومت میں ڈالر 124سے 151روپے تک جا پہنچا ہے آگے اللہ خیر ہی کرے کیونکہ یہی سلسلہ رہا تو ملک سے غریب کم ہونا شروع ہوجائیں گے اس لیے خدارا حکومت کچھ ہاتھ پاؤں مارے اور روپے کے مقابلے میں بڑھتی ڈالر کی قدر کو روکے اور جاری مہنگائی پر کنٹرول کرے ۔ملک میں جاری مہنگائی کے باعث اپوزیشن جماعتیں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہیں کیونکہ تاحیات قائد ن لیگ نواز شریف نے جیل سے پارٹی قائدین کو عید کے بعد حکومت کیخلاف سڑکوں پر تحریک چلانے کی ہدایت کی ہے اور یہ تحریک نوازشریف کے بیانیے کے عین مطابق ہی چلائی جائے گی ۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی اپوزیشن جماعتوں سے رابطے تیز کر دئیے ہیں اور انکے قائدین کو افطار ڈنر پر مدعو کر لیا ہے جبکہ پی پی کے کو چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری 4روز قبل عید کے بعد سڑکوں پر حکومت کے خلاف تحریک کا عندیہ دے چکے ہیں اور مولانا فضل الرحمان تو ویسے ہی ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کو تیار بیٹھے ہیںکیونکہ آج کل انکے لیے کوئی کام جو نہیں کرنے کو۔پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کو ملک میں جاری مہنگائی سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ انہی کے ادوار میں ڈالر 31اور 32روپے مہنگا ہوا تب تو ان کو اپنے اپنے دور حکومت میں عوام کا خیال نہیں آیا تو اب کیسے آ گئی۔دراصل تینوں سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک میں جاری احتسابی عمل سے بہت تنگ ہیں کیونکہ کچھ لین دین بھی تو نہیں ہو رہا کہ بات بن جائے یہی وجہ ہے کہ پی پی ،ن لیگ اور جے یو آئی ف حکومت کیخلاف عیدکے بعد تحریک چلانے کے لیے صف آراء ہو رہی ہیں۔اب کہاں گئی جمہوریت اور کہاں گئے جمہوریت کے رکھوالے۔5سال کیلئے نا اہل ہونے اور سپریم کورٹ کی توہین کرنیوالے مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری بھی بولنا شروع ہو گئے اور کہتے ہیں کہ جمہوریت کے چکر میں ملک کو داؤپر نہیں لگا سکتے مگر ان سے کوئی پوچھے کے اپنے 5سالہ دور حکومت میں ملک کو جو داؤ پر لگایا اس کا کون حساب دیگا۔پاکستان تحریک انصاف کی انتظامی غلطیاں اپنی جگہ مگر جمہوریت کو چلنے دیا جائے اور ووٹ کو عزت دی جائے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کو عوام نے 5سال کا مینڈیٹ دیا ہے اس لیے جمہوری طاقتوں کو چاہئے کہ ملک میں افراتفری پھیلائیں نہ ہی ملک کو عدم استحکام سے دوچار کریں اور ملک اور عوام کیساتھ مخلص بنیںایسا نہ ہو کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے